08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -میرا بچہ قسط1
میرا بچہ
از مشتاق احمد
قسط نمبر1
ایک جنگل میں ڈاکوؤں کا گروہ رہتا تھا۔
اس راستے سے جو بھی گزرتا وہ ان سے ساری رقم لوٹ لیتے تھے۔
بعض دفعہ مال نہ دینے پر قتل تک کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔
لوگ انسے بہت تنگ تھے پر جانتے نہیں تھے کہ وہ ہیں کون۔ اسی گاؤں کے ہیں یا باہر کے۔
انہی دنوں کی بات ہے کہ میرا اور بوٹا اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں دعوت پر جا رہے تھے۔
انکا ایک بچہ بھی تھا بہت سندر سا۔
ڈاکو گھات لگا کر بیٹھے تھے۔
رات کا وقت تھا۔
وہ دونوں باتیں کرتے خوشی سے بائیک پر جا رہے تھے اپنے بچے کے ساتھ۔
ڈاکوؤں نے ترکیب سوچی کہ کیسے لوٹا جائے۔
انہوں نے سڑک پر پتھر پھینک دیے۔
بوٹا اور میرا بے خیالی میں چلے جا رہے تھے کہ آگے دیکھا پتھر پڑے تھے۔
اتر کر سوچنے لگے کیسے گزریں۔
تم پیدل چلو میں آہستہ سے بائیک نکال کر آتا ہوں بوٹا میرا سے بولا۔
جی اچہا کہ کر جیسے وہ دونوں تھوڑا سا آگے بڑھے ڈاکو پہنچ گئے بوٹا کے سر۔
جتنا مال ہے نکالو ڈاکوؤں نے بوٹا کو دھمکی دی۔
ہمارے پاس کچھ نہیں ہم غریب لوگ ہیں آپ ہمیں جانے دو۔ بوٹا نے منت کی۔
ڈاکوؤں کے سردار نے بندوق اس کے سر پر رکھی چل نکال۔
بوٹا نے پانچ سو نکال کر ان کے سامنے کئے یہی ہیں میرے پاس۔
وہ ادھر کیا ہے بائیک پر۔ڈاکوؤں کی نظر بائیک سے لٹکتے لفافے پر پڑی ۔
وہ تحفہ ہے جو ہم نے جا کر دینا ہے بوٹا پریشانی سے بولا۔
ڈاکو بولے وہ بھی دو۔
نہیں یہ امانت ہے بوٹا ضد کر کے بولا۔
نہیں دیتا تو سردار اڑا دو اسکو۔ایک ڈاکو بولا۔
سردار نے گولی مار دی بوٹا اسی وقت مر گیا۔
میرا رونے لگی۔
ڈاکوؤں نے تحفہ لے لیا۔
سردار بائیک اٹھا لیتے ہیں اور بچہ اور اسکی بیوی کو شہر جا کر بیچ دیں گے۔
ڈاکوؤں نے ماں بیٹے کو پکڑ لیا۔
میرا نے عزت بچانے کی خاطر انکو دھکا دیا اور بھاگ پڑی۔
ڈاکو اس کے پیچھے بھاگے۔
آگے کھائی تھی۔
میرا نے کود کر جان دے دی۔
سردار وہ تو مر گئی۔ڈاکو بولے
یہ بچہ تو ہے اسی کو بیچ کر پیسے کمایں گے۔
سب نے مشورہ کیا۔
اس طرح اگلے دن انہوں نے جا کر بچہ بیچ دیا اور واپس آ گئے اور پھر سے ڈاکہ ڈالنے لگے۔
ایک دن گھات لگا کر بیٹھے تھے کہ دو مرد آ رہے تھے۔
ابھی وہ نکلنے لگے کہ انہوں نے دیکھا يكدم ایک عورت ان دونوں مردوں کے سامنے آ گی۔
ہاہاہا۔
تم لوگ مرو گے۔وہ عورت بولی۔
وہ دونوں عورت کو دیکھ کر ڈر گئے کیوں کہ اسکا چہرہ ڈراؤنا تھا۔
لمبے بال جو منہ پر آ رہے تھے۔ لمبے ناخن آنکھیں باہر نکلی ہوئی پاؤں ٹیڑھے ۔
تم انسان بہت ظالم ہو تم لوگوں نے میرا گھر برباد کر دیا۔
میں ہر انسان سے بدلہ لوں گی۔
پھر ڈائین نے ان دونوں پر حملہ کر دیا۔
ایک کو گرا کر بڑے سے پتھر سے اسکا سر کچل دیا پھر دوسرے کو بھی اسی طرح مار کر چلی گئی۔
سارے گاؤں میں خوف پھیل گیا۔
جو بھی اس راستے سے گزرتا وہ ڈائن انکو مار ڈالتی۔ اب تو شام کے بعد یہاں سے لوگوں نے گزرنا چھوڑ دیا وہ سب ڈر گئے تھے۔
پھر جب تین چار بار لوگ قتل ھوے تو گاؤں والوں نے ایک بورڈ پر لکھا۔
"یہاں سے رات کے وقت گزرنا منع ہے"
سڑک پر بورڈ لگا دیا۔
جس کی وجہ سے اب کوئی بھی یہاں سے نہیں گزرتا تھا۔
ڈائن غصہ سے آگ بگولہ تھی۔
اسکا انتقام اب پورا نہیں ہوتا تھا۔
وہ یہاں رات رہتی اور جب غصہ کی انتہا پر پہنچتی تو اس راستے پر ایک قبر بناتی اور چلی جاتی۔
سب ڈرے ھوے تھے۔
ایک دن دو دن ہفتہ گزر گیا کوئی نہ گزرا یہاں سے اب وہ دن کو بھی یہاں آنے لگی تھی۔
اسکو تمام انسانوں سے نفرت تھی۔
ان ڈاکوؤں نے اپنا ٹھکانہ بدل لیا تھا۔
اب وہ بھی شام تک لوٹ مار کرتے اس کے بعد وہ بھی غائب ہو جاتے۔
انکو پتہ تھا کہ یہ ڈائن وہی عورت ہے۔
Raziya bano
08-Sep-2022 02:13 PM
نائس
Reply